Faraz Faizi

Add To collaction

15-May-2022-تحریری مقابلہ۔لعنت ہے یہ جہیز


جہیز کے لغوی معنیٰ

لفظ جہیز دراصل عربی زبان کے لفظ ’’جھاز‘‘ سے نکلا ہے جس کا اطلاق اس سازو سامان پر ہوتا ہے جس کی ضرورت (مسافر کو دوران سفر یا دلہن کو نئے گھر سنبھالنے یا میت کو قبر تک پہنچانے کے لئے) ہوتی ہے۔

جہیز کے اصطلاحی معنیٰ

امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں یوں لکھا ہے:

الجهاز مايعد من متاع وغيره التجهيز حمل ذالک او بعثه.

جھاز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو (کسی کے لئے) تیار کیا جاتا ہے اور اسی سے تجہیز ہے جس کے معنی ہیں اس سامان کو اٹھانا یا بھیجنا۔

(راغب اصفهانی، امام مفردات، القرآن، شيخ شمس الحق 338 اقبال تاؤن لاهور، س ن، 238)

اسلامی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں جہیز وہ سازو سامان ہے جو لڑکی کو نکاح کے بعد اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔

(قاسم محمود، سيد، اسلامی انسائيکلوپيديا، الفضل تاجران کتب، اردو بازار لاهور، 756)

مسلمانوں نے ہمیشہ اسلامی تشخص کا امتیاز برقرار رکھنے کی ہی کوشش کی لیکن تہذیب و تمدن، معاشرت اور ثقافت میں جب ترقی ہوتی ہے تو دولت و ثروت کی فراوانی ہونے لگتی ہے۔ بچے کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک نئی نئی رسوم اور طریقے ایجاد ہوتے ہیں۔ 
انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آئین میں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جہیز کا مختصر سامان جو ضروری ہو جمع کرے۔ یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ رکھی ہے۔ مردوں کی عورتوں پر فضیلت کی ایک اہم وجہ مردوں کا عورتوں پر اپنے مال کو خرچ کرنا بھی ہے۔ شریعت اسلامی میں نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس نکاح میں عورت کو مرد کی طرف سے مہر ملے گا، پس عورت پر خرچ کیا جائے گا نہ کہ اس سے مانگا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں:

اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ.

’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔

(النساء، 4: 34)

اس آیت کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں:

’’یعنی مرد عورت سے افضل ہے کیونکہ وہ اس کو مہر دیتا ہے اور اس کا نفقہ ادا کرتا ہے‘‘۔

(رازی، محمد بن عمر، امام التفسير الکبير، دارالکتب العلمية، لبنان، س ن، 88)

اسی طرح عام مفسرین نے مال خرچ کرنے سے مراد عموماً دو باتیں ہی بیان کی ہیں کہ اس سے مراد مہر اور نفقہ ہے۔ اسلوب کلام اور الفاظ کی عمومیت کے لحاظ سے اس میں تمام قسم کے مالی اخراجات خواہ وہ نکاح سے متعلق ہوں یا گھریلو خریدو فروخت سے جو عموماً جہیز کے دائرہ میں آتے ہیں وہ سب کے سب ’’انفاق اموال‘‘ مال خرچ کرنے میں شامل و داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ نفقہ کے ساتھ عورت کے لئے جائے رہائش فراہم کرنا بھی مرد پر واجب ہے۔ مکان کے ساتھ لوازم مکان کی فراہمی بھی شوہر کے ذمہ واجب ہے ان چیزوں کی فراہمی پر دلہن یا اس کے سرپرستوں کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا مرد کی ذمہ داری ہے کہ گھر کا سامان تیار کرے۔

قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس کا اشارہ تک بھی نہیں ملتا کہ اس قسم کی چیزوں کی فراہمی لڑکی یا اس کے اہل خانہ کے ذمہ ڈال کر انہیں مجبور و بے بس کردیا جائے۔

آج ہم نے جہیز دینااس قدرضرورى سمجھ لیا ہےکہ اگرایک باپ کو قرض بھی لینا پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹتا جبکہ دین اسلام میں صرف ضروریات کی چیزیں دینا جائز ہےوہ بهى صرف پيارمحبت ميں جو والدین اپنی بیٹی کو خوشی سے دیتے ہیں نہ کہ کوئی قرض لے کر دیتے ہیں.آج جب کسی کے گھربیٹی پیدا ہوتی ہے تووہ رحمت کے ساتھ زحمت بن جا تی ہےباپ اپنی بیٹی کے جہیز کے با رے میں فکر مند ہو جاتا ہےاور جب وہ اپنی بیٹی کو رخصت کر تا ہے تو ایک غریب قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور وہ اپنی ساری زندگی قرض چکانے میں گزار دیتا ہے۔

ماں باپ کا گھر بِکا تو بیٹی کا گھر بسا
 ہے کتنی نا مراد یہ رسم جہیز بھی

دوسری طرف دیکھا جا ئےتواکثر غریبوں کی بیٹیاں اپنے باپ کے گھر میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں
اوراس کی وجہ صرف اور صرف جہیز ہے
 بوڑھی ہوئی غریب کی بیٹی شباب میں
غربت نے رنگ روپ نکھرنے نہیں دیا

ہے تو وہ قرضہ لے کر اپنی بیٹی کو جہیز جیسی لعنت سے نوازتا ہے اور اُسے اُس کے سسرال رخصت کرتا ہے اگر جہیز نہ دیا جائے تو سسرال والوں کےطعنے سننے پڑتے ہیں بسا اوقات بے قصور بچیوں کی جان تک لے لی جاتی ہے۔
 کب تلک سجتی رہیں گی یہ چتائیں جہیز کی
اور کتنی بیٹیوں کو زندہ جلایا جائے گا

اس بری رسم کو معاشرہ سے ختم کریں، یہ رسم معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والی ہے، لالچ و حرص کا دروازہ ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ شریعت میں اس کی ذرہ بھی اہمیت ہوتی تو اسے نظر انداز نہ کیا جاتا۔

آئیے اسلام کی روشن تعلیمات سے سیکھتے ہیں:


سنن نسائی  شریف کی حدیث میں ہے:
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ  رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ، جس میں اذخر گھاس بھرا ہوا تھا‘‘۔

(نسائی، احمد بن شعيب، امام، سنن نسائی، دارالکتب، العلمية، بيروت لبنان، 1991ء، رقم الحديث 3386)

جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی درخواست کی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حق مہر کے لئے کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کچھ نہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے فروخت کردو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ 480 درہم میں فروخت کی۔ بعض روایات کی بنا پر جب عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدیہ کردی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ کی قیمت لے کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ، سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس رقم سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے گھر کی ضروری اشیاء خرید لائو اور اس میں سے کچھ درہم حضرت اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو اور جو درہم باقی بچے وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھ دیئے گئے۔

(سيرالصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، اداره اسلاميات لاهور، س ن، ج1، ص256)

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار صاحبزادیوں کی شادیاں کیں اور کسی کو بھی جہیز نہیں دیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو دیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دی ہوئی مہر معجل کی رقم میں سے تھا۔ اسی سے چند چیزوں کا انتظام فرمادیا، ایک چادر، ایک مشک اور ایک تکیہ اور بعض کتابوں میں ایک بستر کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن ہی سے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور وہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے ان کی کفالت کرتے آئے تھے۔ اس لئے قدرتی بات تھی کہ نیا گھر بسانے کے لئے بطور سرپرست سامان کا انتظام کرتے سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زرہ سے یہ سامان فراہم کیا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں کہیں سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگا ہو یا اپنا فرضی حق سمجھ کر قبول کیا ہو، یا اس کو ضروری سمجھا ہو۔

امام غزالی رحمةاللہ علیہ نے لکھا ہے جس کا تذکرہ مشکوۃ میں ہے۔

’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ایک قبیلے کے پاس آئے اور انہیں پیغام نکاح دیا۔ انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ ان دونوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ ہم گمراہ تھے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی، ہم مملوک تھے اللہ نے ہمیں آزاد فرمایا اور ہم مفلوک الحال تھے اللہ نے ہمیں غنی بنایا اگر تم ہم سے اپنی لڑیوں کی شادی کرو تو الحمدللہ اور اگر نہ کرو تو سبحان اللہ۔ ان لوگوں نے کہا کہ (گھبرائو نہیں) تمہاری شادی کردی جائے گی۔ امام غزالی اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی نے بھی جہیز کا ذکر نہیں کیا۔

قارئین کرام! ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے معاشرے کو متحد ہوکر اس لعنی رسم سے پاک کریں۔

بقلم: فرازفیضی

   2
0 Comments